سعودی وفد کے بعد ایرانی صدر کا دورہ  ملکی معیشت کے لئے خوش قسمتی کا مظہر ثابت ہو گا

0

28 April 2024

وفاقی دارالحکومت میں موسم بہار بن کھلے مرجھا گیا، اس کی وجہ موسمیاتی تغیر کے سوا کوئی نہیں، بلاشبہ شاعر نے اسلام آباد جیسے ہی بہار کے موسم کے بارے میں کہا تھا کہ ”پھر اس انداز سے بہار آئی کہ ہوئے مہرو ماہ تماشائی“ لیکن جس تیزی سے ماحولیاتی آلودگی اور کثافت پھیل رہی ہے اس بناء پر یہ کہنا یقینی ہے کہ شاعر کا مذکورہ شعر اب اسلام آباد کے لئے تو ایک خواب بن کر ہی رہ گیا ہے۔کھمبیوں کی طرح جڑواں شہر میں اُگنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اسلام آباد کا حسن اجاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،کیونکہ حکمران اشرافیہ سے لیکر نیچے تک ہر شخص کو موسم نہیں صرف پلاٹ چاہئے، حتیٰ کہ اسلام آباد کے مستقل باسیوں کو تو مرنے ے بعد دفنانے کے لئے دو گز پلاٹ کے حصول کے لئے بھی سفارشیں کروانا پڑتی ہیں۔، اگر سیاسی موسم کا ذکرکریں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت کے دور سے میدانِ سیاست میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی جس طرح جنگ جدل میں تبدیل ہوئی جس کا کلائمس سانحہ9مئی تھا لازمی نتیجہ حکومتی ڈھانچہ میں شکست و ریخت تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکومت کی مستقل طور پر چولیں ہل گئی ہیں۔حکومتی و ادارہ جاتی نظام زمین بوس ہونے کو تھا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد نگران حکومت اور اس کے بعد عام انتخابات کے نتیجہ میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی حکومت نے ان تمام منفی اثرات کو قلیل مدت میں زائل کیا اور حکومت کو دوبارہ ڈھلوان سے بلندی کی طرف ایک ڈگر پر ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

تقریباً اڑھائی ماہ کی قلیل مدت میں اب پاکستان کا امیج تبدیل ہونے لگا ہے۔درحقیقت وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ”سپیڈ“ کی یہی شہرت ہے کہ ان کی حکومت کے ایک دن میں کام کرنے کی مدت طویل اور رفتار تیز ترین سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پھر سے ایک اہم ترین کھلاڑی بن کر اُبھرنے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے اہم ترین ممالک کے رہنما اور وفود پاکستان کے دورے کر رہے ہیں، گزشتہ ایک ہفتے کے دورانیے میں پہلے پاکستان کے برادر عزیز ملک سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایک بھاری بھر کم وفد کے ہمراہ سرمایہ کاری کی غرض سے پاکستان کا دورہ کیا،جس میں سعودی عرب کی جانب سے فوری طور پر پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ طویل المدتی شراکت داری کے لئے بہت سی مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان اس مشکل ترین مرحلے میں ازخود ہی نبرد آزما ہے اسی طرح جب پاکستان اقتصادی مشکلات کے بھنور میں پھنسا تو اسے بیل آؤٹ کرنے کی خاطر بھی امریکہ نے کوئی غیر معمولی دلچسپی نہیں دکھائی۔ فیٹف کے چنگل سے نکلنے سے لیکر آئی ایم ایف کے ساتھ تمام معاملات، کارکردگی اور میرٹ کی بنیاد پر ہی ہو رہے ہیں، جبکہ مزید ازاں سعودی عرب اور ایران کے مابین چین کی بدولت مصالحت نے بھی پاکستان کے لئے ایران سے تعلقات ہموار کرنے کی خاصی گنجائش پیدا کر دی تھی۔ اگرچہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان دونوں جانب کی قیادت کی فہم فراست اور ویژن کا نتیجہ ہے لیکن اس خاکے میں رنگ بھرنے میں ایران میں پاکستان کے سفیر عزت مآب جناب مدثر ٹیپو نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جن کی نہ صرف خطے کے سفارتی معاملات پر گرفت ہے بلکہ مشترق اور مغرب پر بھی ان کی گہری سفارتی نظر ہے۔ایرانی صدر کے دورے کے موقع پر اگلے پانچ سال میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم خوش آئند ہے۔ یہ صرف شہباز شریف کی بدولت ہی ممکن ہے تاہم یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ جو کہ سیاسی استدلال کے ساتھ زور دار انداز میں گفتگو کے فن کی ملکہ رکھتے ہیں، وزارت اطلاعات کی ادارہ جاتی یاد داشت، ساکھ اور مہارت کو استعمال کر کے ”شہباز سپیڈ“ سے حاصل شدہ ثمرات کو عوام تک پہنچا پاتے ہیں؟ اب لگتا ہے کہ غیر معمولی سیاسی چیلنجز کی بناء پر انہیں بھی شاید روایتی اور غیر روایتی اسلوب اپنانا پڑے گا اور کچھ کام تو آؤٹ آف باکس کرنا پڑیں گے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے شورے شرابے کی پروا نہ کرتے ہوئے خطاب کر کے پارلیمانی سال کا افتتاح کر دیا، جبکہ ایرانی صدر کے دورہ کے موقع پر سپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے جن کو خوش اسلوبی سے بوتل میں بند کر دیا جس پر انہیں حکومتی حلقوں سے تحسین بھی ملی۔ وہ ایرانی صدر سے ملاقات میں اپوزیشن رہنما عمر ایوب کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے جس کی وجہ سے شہر میں معزز مہمان کی موجودگی کے دوران ایوان میں اپوزیشن نے روایتی شور شرابے سے اجتناب کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ِ ذکر ہے کہ ایرانی صدر نے صدرِ مملکت آصف علی زرداری،وزیراعظم محمد شہباز شریف کے علاوہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے بھی اہم ملاقات کی، یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی غرض سے آنے والے تمام اہم ترین وفود میں ایس آئی ایف سی خاموشی سے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ ایس آئی ایف سی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ان کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ٹھوس پیشرفت کی ہے لگتا ہے آئندہ آنے والے دن پاکستان کے خوشگوار مستقبل کے حوالے سے اہم ہوں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *