پاکستان افغان تجارتی معاہدے میں نیا کیا اور پرانا کیا؟

0

29 March 2024

Published in: Indep Urdu

پاکستان اور افغانستان نے دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک نئے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور افغان طالبان کی نگران حکومت کے مطابق معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین ’بلا روک ٹوک‘ تجارت ممکن بنانا ہے۔ یہ معاہدہ افغان طالبان کی درخواست پر پاکستانی وفد کے دورہ کابل کے دوران کیا گیا، جس میں افغان حکومت کی وفد کی سربراہی صنعت و تجارت کے قائم مقام وزیر الحاج نورالدین عزیزی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی سیکریٹری کامرس محمد خرم آغا کر رہے تھے۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کی نگران حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات میڈیا کو جاری کیے گئے ہیں اور ان کے مطابق معاہدے کو دو ماہ کے اندر حتمی شکل دی جائے گی۔ معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اگلے چھ ماہ میں کراچی کی بندرگاہوں پر افغانستان کے بین الاقوامی سامان کے کنٹینرز سے مقامی کنٹینرز کو سامان کی منتقلی میں معاونت فراہم کرے گی۔ معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اگلے چھ ماہ میں کراچی کی بندرگاہوں پر افغانستان کے بین الاقوامی سامان کے کنٹینرز سے مقامی کنٹینرز کو سامان کی منتقلی میں معاونت فراہم کرے گی۔ دونوں ممالک کے مابین اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ایک سال کے لیے ٹرکوں کی نقل و حرکت کے لیے ایک عارضی اجازت نامہ جاری کیا جائے گا اور یہ رواں سال مئی سے نافذ العمل ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہوائی اڈوں کے ذریعے ملٹی ماڈل ایئر ٹرانزٹ کی شکل میں سامان کی منتقلی یقینی بنائے جائے گی، جو اگلے دو ماہ سے شروع کی جائے گی۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغان ٹرانزٹ سامان کے لیے لازم بینک ضمانت کی شرط ختم اور ماضی کی طرح انشورنس کافی سمجھی جائے گی جبکہ دونوں ممالک بارٹر تجارت (سامان کے بدلے سامان) کی حوصلہ شکنی اور بینکنگ چینل کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ معاہدے میں کوئلے کی تجارت پر بھی بات کی گئی اور افغان حکومت کی مطابق پاکستان کے بین الاقوامی قیمت پر کوئلہ خریدنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فریقین نے تجارتی معاہدے پر اتفاق کیا بلکہ ماضی میں بھی دونوں پڑوسی ممالک نے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلا تجارتی معاہدہ 1965 میں اس وقت کیا گیا جب کابل میں سردار محمد داؤد کی حکومت کو ظاہر شاہ نے ختم کر دیا اور بعد میں پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پایا۔ تاہم تقریباً 40 سال بعد دونوں ممالک نے محسوس کیا کہ اب ایک نئے تجارتی معاہدے کی ضرورت ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا اور 2001 میں نیٹو افواج کا افغانستان میں داخل ہونا شامل تھا۔ 2010 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ طے ہوا اور اس میں ایک اہم نکتہ یہی تھا کہ اس وقت کے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان کو تازہ پھل اور سبزیوں کو انڈیا سپلائی کرنے کی اجازت دی۔ نئے اور 2010 معاہدے میں کیا مشترک ہے؟ اس معاہدے میں افغانستان سے سپلائی شدہ سامان کے لیے بینک کی گارنٹی میں کمی گئی تھی لیکن اب نئے معاہدے میں بینک گارنٹی کو ختم کر دیا گیا ہے اور اور صرف انشورنس پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2010 کے معاہدے میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ افغانستان سے انڈیا سپلائی کیے گئے سامان پر پاکستان میں فنانشل سکیورٹی چارج نہیں کی جائے گی لیکن اب نئے معاہدے میں اب تک کی تفصیلات کے مطابق انڈیا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ 2010 کے اس معاہدے میں طورخم بارڈر، بلوچستان میں سپین بلدک جبکہ وزیرستان کے غلام خان بارڈر کو زمینی تجارت کے لیے شامل کیا گیا تھا جبکہ افغان ٹرانزٹ کو گوادر اور کراچی پورٹ قاسم کی بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب نئے معاہدے میں کراچی بندرگاہ کو استعمال کرنے اور وہاں پر افغان کنٹینرز کو آسانیاں پیدا کرنے پر دونوں ممالک کے مابین اتفاق کیا گیا ہے لیکن نئے معاہدے میں اب تک کی تفصیلات کے مطابق گوادر بندرگاہ کا ذکر نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *