پاکستان کی مثبت اقتصادی ترقی: اُمید کی کرن

0

لاہور: (آغا قمر) ریاست پاکستان نے حالیہ دور میں معاشی کسمپرسی کا ایک بہت درد ناک دور دیکھا ہے، جس سے نکلنا تقریباً نا ممکن سا لگ رہا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے ملکی عسکری و سیاسی قیادت کی انتھک محنت اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امید کی ایک نمایاں کرن نظر آئی ہے۔

پچھلے کچھ مہینوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، سپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں، آئیے جائزہ لیں کہ پچھلے کچھ مہینوں میں کیا مثبت اثرات و واقعات ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر ملک میں معاشی بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں جن میں ترقی کی مجموعی آؤٹ لک بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے جیسا کہ مالی سال 2024ء (صنعتی سرگرمی اور فصل) کے لیے شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے جو کہ مالی سال 2023ء کے لیے صرف 0.3 فیصد تھی، اسی طرح، اگست 2023ء تک پاور جنریشن میں 14 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جبکہ ڈیزل سیلز میں 11 فیصد اور پٹرول سیلز میں 8 فیصد اضافہ ہوا۔

مزید برآں سیمنٹ کی فروخت میں جولائی سے اگست کے دوران 45 فیصد اضافہ ہوا جبکہ یوریا کی فروخت میں 49 فیصد اور آٹو سیلز میں 18 فیصد اضافہ ہوا، علاوہ ازیں ایف بی آر نے ہدف سے زیادہ ٹیکس وصولی کی، ٹیکس فائلنگ میں بھی ستمبر 2022ء کی نسبت ستمبر 2023ء میں بہتری آئی، اسی طرح ستمبر 2023ء میں پاکستان کی برآمدات 1.15 فیصد اضافے سے 2.465 بلین ڈالر ہوگئیں جبکہ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کی شرح نمو میں بھی 42 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گزشتہ مالی سال کے پہلے دو ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں پاکستان کی غیر ملکی فنانسنگ 6 گنا سے زائد اضافے کے ساتھ 5.41 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، علاوہ ازیں کسانوں کو آسان قرض کی فراہمی اور زرعی فصلوں اور فارمنگ پر رہنمائی کی بدولت زرعی فصلوں کی پیداوار میں بھی مجموعی طور پر بہتری آئی ہے جیسا کہ ملک میں کاٹن پروڈکشن 72 فیصد بڑھ گئی ہے۔

چاول کی پیداوار 9 ملین ٹن تک پہنچنے کے امکانات کے باعث اس برس اڑھائی ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ممکن ہوگی جبکہ گندم کی پیداوار 28 ملین ٹن تک پہنچ گئی جو کہ پانچ برس کی اوسط سے زیادہ ہے، اس کے علاوہ کسانوں کو قرضوں کی فراہمی میں 35 اضافہ یعنی پاکستان میں فارم ایکٹوٹیز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس 2027ء تک بڑھا دیا ہے جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔

ملک میں زرعی وصنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر و اشیاء کی غیر قانونی سمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، ڈالر کی قیمت میں دو ماہ میں 50 روپے سے زیادہ کمی ( 334 روپوں سے 277 روپے) آچکی ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ عالمی سطح پر کئی دن تک سرفہرست کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی بن گیا، پٹرولیم کی قیمتوں میں 3 فیصد کمی اور آنے والے ہفتوں میں روپے کی قدر میں بہتری اور روسی برآمدات پر پابندی اٹھ جانے سے مزید کمی کا امکان ہے، مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک طویل عرصے کے بعد 2 لاکھ فی تولہ سے کم ہوئی ہے۔

پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب ہو رہی ہیں، پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور بین الاقوامی ترقیاتی بنک سے مجموعی طور پر 1.4 ارب ڈالر وصول کرے گا، پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تقریباً 3-5 بلین ڈالر کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی یقین دھانی کروائی گئی ہے۔

افغان ٹریڈ کی ریشنلائزیشن کے بعد 212 آئٹمز پر پابندی عائد کی گئی ہے، جولائی سے ستمبر سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 42 فیصد کم ہو کر مالی سال میں 6 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گیا ہے، صرف ستمبر میں تجارتی خسارہ 48.2 فیصد کم ہوا، برآمدات میں 1 فیصد اضافہ، درآمدات میں 25 فیصد کمی دیکھنے میں ملی۔

اسلام آباد میں بینک آف چائنا کی برانچ کا باضابطہ طور پر آغاز کیا گیا، گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) اور پاکستان نے ابتدائی فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA) پر دستخط کئے، پاکستان کی چار حکومتی حمایت یافتہ تیل اور گیس کمپنیوں نے سعودی تیل کمپنی آرامکو کے ساتھ 10 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا اور چینی الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی نے پاکستان میں ایک الیکٹرک گاڑی (EV) پلانٹ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مصری کھرب پتی نجیب سوارس نے بھی پاکستان میں ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل پیداوار،خوراک کی پیداوار، سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آرہی ہے۔

فصل کی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے پاکستان 5 ارب ڈالر تک فارن ایکسچینج بچا سکے گا (کپاس، گندم، ٹیکسائل، خوردنی تیل اور چاول کی زیادہ برآمدات اور کم درآمدات) اور تیل کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان ہے۔

اکتوبر/نومبر2023 میں آئی ایم ایف کے پہلے جائزے کی حمایت کے لیے بہتر ٹیکس جمع ہوں گے، تیل کی قیمتوں میں کمی اور فصل کی بہتر پیداوار کی وجہ سے تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2024ء کے لیے تقریباً 6 ارب ڈالر تک ہوگا۔

مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *