شرح سود‘ سرمایہ کاری اور ایف بی آر
Published in: Roznama Duniya
06 May 2024
میاں عمران احمد
لک میں کنزیومر پرائس انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی کم ہو کر تقریباً سوا سترہ فیصد پر آ گئی ہے۔ میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ شرح سود میں کمی ہو سکتی ہے لیکن سٹیٹ بینک نے شرح سود کو برقرار رکھا ہے جس پر مارکیٹ اور سٹیک ہولڈرز کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ صنعتی و تجارتی شعبے سے منسلک افراد نے شرح سود میں کمی نہ کرنے پر مرکزی بینک کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ اس سے پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے اور مارکیٹ میں مصنوعات غیرمسابقتی بن گئی ہیں۔ یہ غیر منطقی ہے کہ جب مہنگائی 29 فیصد تھی تو سٹیٹ بینک نے شرح سود 22 فیصد رکھی لیکن اب جبکہ افراطِ زر کی شرح 17.3 فیصد پر آ گئی ہے‘ تب بھی پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس وقت شرح سود مہنگائی کے مقابلے میں 4.7 فیصد زیادہ ہے‘ لہٰذا اس میں واضح طور پر کمی کی گنجائش ہے۔
اس وقت ملک میں سعودی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ تقریباً پچاس رکنی سعودی وفد پاکستان پہنچ چکا ہے۔ ماضی میں بھی سعودی سرمایہ کار پاکستان آتے رہے ہیں اور بہت سے وعدے بھی ہوئے لیکن اس مرتبہ سعودی سرمایہ کاروں کی باڈی لینگوئج مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید SIFCکے تحت کی جانے والی محنت اور منصوبہ بندی اپنے اثرات دکھانے لگی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی سعودی دلچسپی ہمارے ملک کے معدنیاتی منظرنامے کو کافی تبدیل کر سکتی ہے۔ سعودی عرب اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ‘ جس کا کُل حجم ایک ٹریلین ڈالر سے زائد ہے‘ کے ساتھ پاکستان کی مائننگ انڈسٹری کی ترقی میں تعاون کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر تیار دکھائی دیتا ہے۔ معدنیات‘ جیسے کاپر‘ لیتھیم بیٹریز کے لیے ضروری ہیں اور توانائی کی منتقلی اور قابلِ تجدید معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مخصوص معدنیات بشمول تانبے کے حصول کے لیے عالمی سطح پر بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ انہیں قابلِ تجدید توانائی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے؛ تاہم ان میں سے بہت سی معدنیات ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو جغرافیائی و سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں‘ جس کی وجہ سے وہاں کان کنی میں دشواری ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس تانبے اور سونے کے بھی ذخائر ہیں جنہوں نے سعودی عرب کی توجہ حاصل کی ہے۔ سعودیہ پاکستان کے وسائل کو عالمی تناظر میں قابلِ تجدید توانائی کے حصول کے لیے ایک اچھی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کان کنی کو اہم سمجھتا ہے اور ان کے نزدیک سرمایہ کاری کے 13 اہم شعبہ جات میں سے کان کنی کا شعبہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان‘ دونوں کو مل کر کام کرنے سے مشترکہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ اس سے پاکستان کی کان کنی کی مہارت اور صلاحیتوں کو بھی فروغ ملے گا۔ اگر تانبے کے وسائل میں ایک ارب ڈالرز کا وفاقی شیئر سعودی عرب کے حوالے کیا جاتا ہے تو یہ تزویراتی طور پر بھی کافی مددگار ہو سکتا ہے۔ حالیہ عرصے میں پہلی بار دونوں ممالک مالیاتی امداد یا کمرشل شراکت داری کے بغیر صرف اقتصادی وعدوں کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ مستقبل کا سوچیں تو اس طرح پاکستان کے اقتصادی شعبہ جات میں خلیجی ممالک کی دلچسپی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ آگے چل کر معدنیات کے علاوہ دیگر اہم شعبہ جات بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ قومی ایئر لائن کی نجکاری‘ زراعت‘ کارپوریٹ فارمنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں بھی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ یہ شراکت داری پاکستان کی معیشت کے لیے تبدیلی کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے‘ جس میں مائننگ سیکٹر ممکنہ طور پر سب سے آگے ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب خلیج کے خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے مگر پاکستان کو اس کے ساتھ تجارت میں فی الوقت بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ سعودی وفد کے ساتھ بزنس ٹو بزنس‘ حکومت سے بزنس اور حکومت ٹو حکومت بزنس کے مواقع پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ پاکستانی تاجروں کے ساتھ وفد کی بات چیت کے نتیجے میں برآمدات بڑھانے کے مواقع تلاش کیے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے معاہدے ہوں جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہوں۔ ماضی میں غیر ملکی آئی پی پیز اور چند دیگر شعبوں میں کیے گئے معاہدے عوام کے سامنے ہیں جن کی قیمت آج تک پاکستانی عوام ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے نان فائلرز کے حوالے سے ایف بی آر کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے پانچ لاکھ سے زائد افراد کی سمیں بند کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ایف بی آر نے ملک میں 24 لاکھ سے زائد ایسے افراد کی نشاندہی کی تھی جو ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے اور ان میں سے پانچ لاکھ سے زائد افراد کی فہرست ایف بی آر کو جاری کی گئی تھی لیکن اس پرعمل درآمد نہیں ہوا۔ اس حوالے سے جو وجوہات بتائی گئی ہیں وہ کسی حد تک درست دکھائی دیتی ہیں۔ پی ٹی اے کے مطابق فائلرز کی سمز بلاک کرنے کا عمل ان کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بڑی تعداد میں سمیں بلاک کرنے سے ٹیلی کام معیشت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ٹیلی کام کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔ بینکنگ ٹرانزیکشنز‘ ای کامرس‘ موبائل اکائونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایف بی آر کے پاس بہت سے دیگر قانونی راستے موجود ہیں‘ جن کے ذریعے نان فائلرز کو شکنجے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی کوششیں کر رہا ہے‘ ان حالات میں اگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے مسائل پیدا کیے گئے تو اس سے مثبت پیغام نہیں جائے گا‘ لہٰذا سم بلاک کرنے کے علاوہ دیگر آپشنز پر غور کیا جانا چاہیے۔ ٹیکس آمدن میں اضافے کے لیے حکومت نے چند دیگر اقدامات بھی کیے ہیں جو حوصلہ افزا ہیں۔ 2700 ارب روپے سے زائد کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے معاملے پر ایف بی آر کو اہم اختیارات دیے گئے ہیں جبکہ کمشنر اِن لینڈ ریونیو اپیلز کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کو انکم ٹیکس کے صرف دو کروڑ روپے تک کے کیسز سننے کا اختیار ہو گا جبکہ سیلز ٹیکس کے ایک کروڑ روپے تک کے کیسز کی سماعت ہو سکے گی۔ ایکسائز ڈیوٹی کیسز میں بھی اختیار 50 لاکھ روپے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ جن افراد اور کمپنیوں پر ایف بی آر کروڑوں روپے کا ٹیکس لگاتا ہے‘ کمشنر اپیلز ان پر سٹے دے دیتے ہیں اور اکثر کے فیصلے ایف بی آر کے خلاف آتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سطح پر رشوت کا بازار خاصا گرم ہوتا ہے۔ تاثر یہ ہے کہ کیس کی مناسبت سے رقم طے کی جاتی ہے اور مبینہ طور پر پانچ سے دس فیصد کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں۔ ایف بی آر کے آرڈرز کے خلاف فیصلہ ہونے کی صورت میں کروڑوں روپوں کے کیسز میں ریکوری ممکن نہیں رہتی۔ ایسا نہیں کہ ایف بی آر اس معاملے میں کلیئر ہوتا ہے‘ اس کی بھی بہت سے کوتاہیاں ہوتی ہیں‘ جن کی بنیاد پر فیصلہ اس کے خلاف آتا ہے۔ مبینہ طور پر کچھ بڑے آفیسرز کے خلاف کرپشن معاملات کی وجہ سے اب ایکشن لیا گیا ہے لیکن سوال وہی ہے کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ نئے آنے والے آفیسرز اپنا دامن صاف رکھیں گے اور کارکردگی دکھائیں گے؟ ایف بی آر کے اختیارات میں اضافے سے رشوت کا بازار مزید گرم ہونے کا اندیشہ ہے۔ مسئلے کا اصل حل ٹیکس نظام کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے‘ جس پر اُس طرح توجہ نہیں دی جا رہی جو وقت کی ضرورت ہے